یہ کون جانے
کہ کل کا سورج
نحیف جسموں سلگتی روحوں پہ
کیسے کیسے عذاب لائے
گئی رتوں سے جواب مانگے
نظر نظر میں سراب لائے
یہ کون جانے!
یہ کون مانے
کہ لوح احساس پر گئے موسموں کے جتنے بھی
نقش کندہ ہیں
سب کے سب
آنے والی ساعت کو آئینہ ہیں
جو آنکھ پڑھ لے
تو مرثیہ ہیں
یہ کون دیکھے ،یہ کون سمجھے
کہ صبح کاذب کی بارگاہوں میں سر بہ سجدہ امین چہرے
کڑی مسافت پہ پاؤں دھرنے سے پیشتر ہی
گراں نقابیں الٹ رہے ہیں
رہ ریا کو پلٹ رہے ہیں
یہ کون سمجھے یہ کون جانے!!
نظم
ادھورے موسموں کا ناتمام قصہ
حسن عباس رضا