EN हिंदी
عدم کتھا | شیح شیری
adam katha

نظم

عدم کتھا

تنویر انجم

;

میں محبت کرتا اور زندہ رہنا بھول چکی ہوں
اور کھلونوں کے نئے کاروبار کا لطف اٹھا رہی ہوں

کھلونے مجھے بیچ رہے ہیں
موت کے ہاتھوں

جو ضرورتوں اور ضرورتوں کی تکمیل کے بہروپ بدلتی ہے
کھلونے مجھے چابی دیتے ہیں

اور صبح ہو جاتی ہے
شام ہوتے ہوتے چابی ختم ہوتی ہے

اور ذہن میں بھڑکتے ہوئے شعلوں
یا دل میں چبھتی ہوئی ٹھنڈک کی طرح یادیں

رات بن جاتی ہیں
جیسے کسی بھوکے نوکر کو کام کروانے کی مجبوری میں

مزید بھوکا رکھا جاتا ہے
وہ میری آنکھوں میں جھانکے بنا سو جاتا ہے

وجود تک پہنچنے والے کبھی نہ کیے جانے والے سفر کے لیے
وہ آسمان تک جانا چاہتا ہے

اور میں گھر کی دیواریں بلند کرنا چاہتی ہوں
کھلونے اپنا وجود میرے دل سے اگاتے ہیں

اور مجھے یقین ہے
وہ وجود رکھتے ہیں

اور میں ان سارے مجبور دنوں کی طرح
عدم بن چکی ہوں