نظم کی تختی پہ غزل کے ہجے
پنجوں پہ گاجنی کے بلکتے بلکتے
رشتوں کی ابجد پہ ہراساں کھڑے تھے
لمحوں کی رسوئی میں حرفوں کی ہنڈیا
عہد نزار سے جڑ گئی
نہ غزل کی تختی
نہ نظم کے ہجے بس ابجد تھی
کہ رشتوں کی جدول میں
پڑی پڑی حرفوں کی شناخت بھول گئی
نظم
ابجد
سلیم شہزاد