EN हिंदी
ابھی وہ ایک دن کا بھی نہیں | شیح شیری
abhi wo ek din ka bhi nahin

نظم

ابھی وہ ایک دن کا بھی نہیں

نسرین انجم بھٹی

;

ابھی وہ ایک دن کا بھی نہیں
بھٹی سے مٹی کی نسل آگ کا نام پوچھتی اور

گیلی چھاؤں تلے سو نہ نہ جاتی تو قیدی قیدی نہ جنتے کلیاں کھلتیں یا موسم رہا ہوتے یا کچھ اور
ہوتا مگر یوں ہوا کہ اس کے میرے درمیاں اک پل ٹوٹ گیا

اس کے میرے درمیاں ایک تتلی بھڑکتی پھرتی ہے
اس کے میرے درمیاں اک راہ مسافر ہے

اس کے میرے درمیاں بہت سے لفظ ٹوٹے ہوئے پیالوں کے کنڈوں کی طرح
ایک دوسرے میں اٹکے ہوئے ہیں

سو میں نے آج کا دن بھی ضائع ہونے کے لئے دیوار پر ڈال دیا
چندھیائی ہوئی چڑیا در پر کوا کس کے مزار کی مٹی لیے

میرے آنگن میں دھوپ دھونے آ نکلی ہے
اڑنے میں کچھ دیر لگے گی

پر گیلے ہیں چھتیں اونچی ہیں درمیاں میں دھواں
دھوپ سمیٹ اور بکھیر رہا ہے

آؤ مجھے رہا کرو میرے پروں سے گیلی مٹی چمٹی ہوئی ہے
مجھے اڑنے کا اذن دو کہ میں نے سو رہنے کا گناہ کیا

سورج کمانے اب چھاؤں نہ ہونے دینا
میں نے مرا ہوا جھوٹ جنا مجھے اور سونے نہ دینا کہ ابھی مجھے سچ بولنا ہے