صف ماتم بچھی ہے
سخن کا آخری در بند ہونے کی خبر نے
کھڑکیوں کے پار بیٹھے غمگساروں کو
یہ کیسی چپ لگا دی ہے
یہ کس کی ناگہانی موت پر سرگوشیوں کی آگ روشن ہے
کسی کے کنج لب سے کوئی تارا میرے دل پر آن پڑتا ہے
برا ہو موت کا جس نے مرے فریاد رس کی جان لے لی ہے
ابھی اس کی ضرورت تھی
میں اس دنیا کے اک گوشے میں بیٹھا سوچتا ہوں
آج اس ویران منڈلی میں
میں کس کو پرسہ دینے کے لیے آیا ہوں
مجھ کو تعزیت تو خود سے کرنا تھی
ابھی اس گھر سے اک میت سدھاری ہے
دم رخصت
کسی نے نکہت زلف پریشاں کا نہیں پوچھا
کسی نے دکھ کے اندر روشنی کی چھب نہیں دیکھی
مکاں سے پھوٹنے والی روش پر
ایک بچہ رو رہا ہے
آج اس کے آنسوؤں کو کون پونچھے گا
کہ اس کے ساتھ جو شطرنج کی بازی لگاتا تھا
وہ اب زیر زمیں اک چادر سادہ کی خوشبو ہے
یہاں صبحیں بھی آئیں گی
یہاں شامیں بھی اتریں گی
مگر اک ہچکیاں لیتا ہوا بچہ
چراغ آرزو بن کر
سر طاق لحد گونگی زمیں کی لب کشائی تک پکارے گا
برا ہو موت کا جس نے مرے فریاد رس کی جان لے لی ہے
نظم
ابھی اس کی ضرورت تھی
عباس تابش