ابھی تو میں جوان ہوں
جوان ہو تو زندگی کی نبض گدگدا تو دو
جوان ہو تو وقت کی سیاہیاں مٹا تو دو
یہ آگ لگ رہی ہے کیوں اسے ذرا بجھا تو دو
ابھی تو میں جوان ہوں
جوان ہو تو آندھیوں سے ڈر رہے ہو کس لئے
جوان ہو تو بے کسی سے مر رہے ہو کس لئے
عروس نو کی طرح تم سنور رہے ہو کس لئے
ابھی تو میں جوان ہوں
جوان ہو تو شیشہ و شراب زندگی نہیں
جوان ہو تو زندگی میں صرف اک ہنسی نہیں
فلک پہ بدلیاں بھی ہیں فلک پہ چاندنی نہیں
ابھی تو میں جوان ہوں
جوان ہو تو ہو گئے ہو زندگی پہ بار کیوں
جوان ہو تو در ہی سے پلٹ گئی بہار کیوں
دماغ حسرتوں کا ہے بنا ہوا مزار کیوں
ابھی تو میں جوان ہوں
جوان ہو تو زندگی سے کام لے کے بڑھ چلو
جوان ہو تو حریت کا نام لے کے بڑھ چلو
دیار انقلاب کا پیام لے کے بڑھ چلو
نظم
ابھی تو میں جوان ہوں
اختر پیامی