نیاز مندوں کی بھیڑ ہے اک
قطار اندر قطار سارے کھڑے ہوئے ہیں
میں فاصلے پر ہوں سوچتا ہوں
کہ دست خالی کے اس سفر میں
کمانا کیا اور گنوانا کیا ہے
میں اس مقام عجیب یعنی
'کمانا کیا اور گنوانا کیا ہے'
پہ جب پہنچتا ہوں دیکھتا کیا ہوں
میں اسی دائرے کے اوپر کھڑا ہوا ہوں
جہاں میں کل تھا
جو فرق آیا تو صرف اتنا
تب اس طرف تھا
اب اس طرف ہوں
ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا
'تو زندگی کیا سفر ہے بس اک طرف طرف کا'
کہ آ گیا موڑ
اشارہ تھا میرے بر طرف کا
نظم
ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا
شہرام سرمدی