ابھی کچھ دن لگیں گے خواب کو تعبیر ہونے میں
کسی کے دل میں اپنے نام کی شمع جلانے میں
کسی کے شہر کو دریافت کرنے میں
کسی انمول ساعت میں کسی ناراض ساتھی کو ذرا سا پاس لانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
درد کا پرچم بنانے میں
پرانے زخم پہ مرہم لگانے میں
محبت کی کویتا کو ہوا کے رخ پہ لانے میں
پرانی نفرتوں کو بھول جانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
رات کی دیوار میں اک در بنانے میں
مقدر میں لگی اک گانٹھ کو آزاد کرنے میں
نئے کچھ مرحلے تسخیر کرنے میں
مرے غالبؔ، مرے ٹیگورؔ کو اپنا بنانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
دشت میں پھولوں کا گلدستہ سجانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
مگر یہ دن زیادہ تو نہیں ہوں گے
بس اک موسم کی دوری پر
کہیں ہم تم ملیں گے
بس اک ساعت کی نزدیکی میں
باہم مشورے ہوں گے
بس اک گزرے ہوئے کل سے پرے
ہم پاس بیٹھیں گے
بہت سا درس سہہ لیں گے
بہت سی بات کر لیں گے!
نظم
ابھی کچھ دن لگیں گے
اصغر ندیم سید