EN हिंदी
اب تو کچھ ایسا لگتا ہے | شیح شیری
ab to kuchh aisa lagta hai

نظم

اب تو کچھ ایسا لگتا ہے

زہرا نگاہ

;

اب تو کچھ ایسا لگتا ہے
سارا جگ مجھ سے چھوٹا ہے

آنکھیں بھی مری بوجھل بوجھل
شانوں پر بھی کچھ رکھا ہے

کاتب وقت نے جاتے جاتے
چہرے پر کچھ لکھ سا دیا ہے

آئینے میں چہرہ کھولے
دیکھ رہی ہوں کیا لکھا ہے

لکھا ہے ترے روپ کا ہالہ
اور کسی کے گرد سجا ہے

لکھا ہے زلفوں کا دوشالہ
اور کسی نے اوڑھ لیا ہے

لکھا ہے آنکھوں کا پیالہ
کہیں کہیں سے ٹوٹ رہا ہے

پڑھ کر مصحف رخ کی عبارت
دل کو اطمینان ہوا ہے

روح تلک سرشار ہے میری
آئینہ حیران ہوا ہے

اس کو شاید علم نہیں ہے
میرا دامن اب بھی بھرا ہے

جو رکھنا تھا رکھے ہوئے ہوں
جو دینا تھا بانٹ دیا ہے