ایک ڈر تھا تنہائی کا
ایک ڈر تھا جدائی کا
جو مسلسل میرے ساتھ رہتا تھا
کل کا دن جو گزر گیا
بہت بھاری لگتا تھا
لگتا تھا کسی ایسے دن کا بوجھ اٹھا نہ پاؤں گی
آدھے ادھورے راستے میں ہی مر جاؤں گی
مگر کل کا دن بھی آ ہی گیا
اور ریت کا وہ گھروندا ساتھ ہی بہا لے گیا
جس میں رکھے تھے میں نے
رنگ برنگ کے پیارے پتھر
تتلیوں کے پر اور مور کے پنکھ
پھولوں کے سب رنگ
اور آسمان کی دھنک
گلہری کا ادھ کھایا اخروٹ
ماں کے پروں تلے بیٹھے مرغابی کے بچے
اس گھروندے پر اتری دھوپ جس نے مجھ سے میرا سایہ جدا کر دیا تھا
کل جب وہ سب بے رحم وقت کی موجوں کے ساتھ بہہ گیا
اور چار سو قبر جیسا اندھیرا پھیل گیا
تو سفید دھوپ جاتے جاتے ایک احسان کر گئی
وہ مجھ کو میرا سایہ لوٹا گئی
اور میں مرتے مرتے بچ گئی ورنہ
میں تو ایسے کل میں مر ہی جاتی
آوازوں کے بچھڑنے سے

نظم
اب ڈر نہیں لگتا
روبینہ فیصل