زندہ رہنا سیکھ کر بھی میں نے شاید
زندگی کو درد تہہ تک
پی کے جینے کی کبھی کوشش نہیں کی!
پیاس تھی پانی نہیں تھا
صبر سے شکر و رضا کے بند حجروں میں بندھا
بیٹھا رہا اور حلق میں جب پیاس کے کانٹے چبھے تو
سہہ گیا میں!
میرے گھر والوں نے، میرے بیوی بچوں نے بھی
جلتے ہونٹ سی کر پیاس کے کانٹوں کو سہنے
صبر سے شکر و رضا کے بند حجروں میں
تڑپنے کا سبق سیکھا مجھی سے
یہ سراسر بزدلی تھی، ان سے دھوکا تھا
کہ میں نے خود کو پہچانا نہیں تھا!
میں بھی موسیٰ کی طرح
غصے میں اپنی آستینوں کو چڑھاتا
اور عصا کی ایک کاری چوٹ سے
چٹان کے ٹکڑے اگر کرتا
تو شاید بازیابی کے عمل میں مجھ پہ کھلتا
رہبری کا فن نبوت کا کرشمہ
پیاس سے ہلکان لوگوں کے لیے پانی کا چشمہ
آزمائش شرط تھی
میں نے کبھی پوری نہیں کی
نظم
آزمائش شرط تھی
ستیہ پال آنند