EN हिंदी
آزادی کا حق | شیح شیری
aazadi ka haq

نظم

آزادی کا حق

عزیر رحمان

;

یہ سچ ہے اب آزاد ہیں ہم
مٹی سے سگندھ یہ آتی ہے

اے جان سے پیارے ہم وطنو
ابھی کام بہت کچھ باقی ہے

آزادی پہلی منزل تھی
تھا حوصلہ سب نے ساتھ دیا

کانٹوں سے بھرے ان رستوں کو
زخمی پیروں سے پار کیا

آگے دیکھا محبوب نظر
بیٹھا وو ہمارا ساقی ہے

اے جان سے پیارے ہم وطنو
ابھی کام بہت کچھ باقی ہے

یہ دیش بنا قربانی سے
جانیں قربان ہوئیں کتنی

آنکھوں میں ملک کا نقشہ تھا
پرواہ انہیں کب تھی اپنی

تختوں پہ کھڑے ہو کر جب بھی
پھولی دیکھا ہر چھاتی ہے

اے جان سے پیارے ہم وطنو
ابھی کام بہت کچھ باقی ہے

جب ڈھول نگاڑے بجتے تھے
ہم جوجھتے تھے بند کمروں میں

منصوبوں پر منصوبے تھے
گاؤں کے وو ہوں یا شہروں کے

ہم تھکے نہیں بڑھتے ہی چلے
کہ آگے ہمارا ساتھی ہے

اے جان سے پیارے ہم وطنو
ابھی کام بہت کچھ باقی ہے

یہ دیش بنا اک گلدستہ
بدنام نہ ہونے دیں گے اسے

مذہب کے نام پہ بانٹنے کا
جو کام کرے بس روکو اسے

گر شروع ہوئی خانہ جنگی
پھر کاہے کی آزادی ہے

اے جان سے پیارے ہم وطنو
ابھی کام بہت کچھ باقی ہے

ہے ملک بڑا تو مسلے ہیں
حل ہونے ہیں حل ہوں گے بھی

دل ہارنا شوبھا دیتا نہیں
آئے چاہے سو مشکل بھی

بس کھوٹ نہیں ہو نیت میں
یہ ہوا تو پھر بربادی ہے

اے جان سے پیارے ہم وطنوں
ابھی کام بہت کچھ باقی ہے

بس ایک گزارش ہے تم سے
جب قدم اٹھیں ہر قوم ہو ساتھ

بھولیں مذہب اور جاتی کو
ہو دل میں دیش ہاتھوں میں ہاتھ

تب پتہ چلے اس دنیا کو
یہاں اب بھی نہرو گاندھی ہے

اے جان سے پیارے ہم وطنوں
ابھی کام بہت کچھ باقی ہے