EN हिंदी
آویزش | شیح شیری
aawezish

نظم

آویزش

وزیر آغا

;

آج پھر اس سے ملاقات ہوئی
باغ کے مغربی گوشے میں جھکے نیم کے چھتنار تلے

ایک بد رنگ سی چادر پہ وہ بیٹھا تھا مجھے دیکھ کے سرشار ہوا
بھائی کیسے ہو! نظر تم کبھی آتے ہی نہیں

آؤ کچھ دیر مرے پاس تو بیٹھو دیکھو
کیسا چپ چاپ ہے یہ باغ کا گوشہ جیسے

کسی مواج سمندر میں جزیرہ کوئی
دور وہ سرمئی بادل کی فروزاں جھالر

جیسے ہاں جیسے مگر خیر کوئی بات نہیں
آؤ تم پاس تو بیٹھو میرے

اور میں چپکے سے چادر پہ وہیں بیٹھ گیا
اس کے ہونٹوں سے اترتے ہوئے الفاظ کی چہکار میں تا دیر میں خاموش رہا

کیسی چہکار تھی وہ خشک پیڑوں میں ہوا کا نوحہ
جیسے گرتے ہوئے پتوں کی لگاتار صدا

دفعتاً سوچ کے اک اجنبی جھونکے نے مجھے چھیڑ دیا
جانے کب سے یہ مسافر ہے جزیرے میں مقید تنہا

منتظر آئے گی اک روز کہیں سے ناؤ
بادباں ابر کا چاندی کے چمکتے چپو

رسمساتی ہوئی اک نرم رسیلی آواز
تو کہاں ہے تو کہاں ہے کہ تجھے

ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں ہار گئی ہار گئی
اور بد رنگ سی چادر پہ وہ بیٹھا ہوا شخص

خواب میں بولتا جاتا تھا سیہ باسی لفظ
اس کے سوکھے ہوئے ہونٹوں سے نکل کر ہر سو

جھوٹے سکوں کا بناتے چلے جاتے تھے حصار
آج پھر اس سے ملاقات ہوئی

وہیں اس باغ کے گوشے میں جھکے نیم کے چھتنار تلے
آج پھر اس سے ملاقات ہوئی