اس کی آمد کے تصور سے سنبھلتی آواز
اس کی قربت کی تمازت سے پگھلتی آواز
صبح دم شوخ پرندوں کے چہکنے کی صدا
بند کلیوں کے نئے روپ کی کھلتی آواز
بحر ذخار کی عادت ہے یہ ٹھہرا ہوا شور
تیز دریاؤں کے پانی کی مچلتی آواز
کوہساروں کے چٹخنے سے گرجنے کی صدا
اور چشموں کی روانی سے اچھلتی آواز
گردش خوں میں رواں دل کے دھڑکنے کی صدا
اشک خوں ناب کے اندر سے ابلتی آواز
کارخانوں کی مشینوں کی ملوں کی آواز
گاڑیوں تانگوں بسوں سائیکلوں کی آواز
بحر و بر کچھ بھی نہ ہوتے یہ جہاں کیا ہوتا!
گر یہ آواز نہ ہوتی تو یہاں کیا ہوتا
نظم
آواز
حارث خلیق