اک یہی سوز نہاں کل مرا سرمایہ ہے
دوستو میں کسے یہ سوز نہاں نذر کروں
کوئی قاتل سر مقتل نظر آتا ہی نہیں
کس کو دل نذر کروں اور کسے جاں نذر کروں
تم بھی محبوب مرے، تم بھی ہو دل دار مرے
آشنا مجھ سے مگر تم بھی نہیں، تم بھی نہیں
ختم ہے تم پہ مسیحا نفسی، چارہ گری
محرم درد جگر تم بھی نہیں تم بھی نہیں
اپنی لاش آپ اٹھانا کوئی آسان نہیں
دست و بازو مرے ناکارہ ہوئے جاتے ہیں
جن سے ہر دور میں چمکی ہے تمہاری دہلیز
آج سجدے وہی آوارہ ہوئے جاتے ہیں
درد منزل تھی، مگر ایسی بھی کچھ دور نہ تھی
لے کے پھرتی رہی رستے ہی میں وحشت مجھ کو
ایک زخم ایسا نہ کھایا کہ بہار آ جاتی
دار تک لے کے گیا شوق شہادت مجھ کو
راہ میں ٹوٹ گئے پاؤں تو معلوم ہوا
جز مرے اور مرا راہنما کوئی نہیں
ایک کے بعد خدا ایک چلا آتا تھا
کہہ دیا عقل نے تنگ آ کے خدا کوئی نہیں
نظم
آوارہ سجدے
کیفی اعظمی