EN हिंदी
آوارہ گرد لمحے | شیح شیری
aawara-gard lamhe

نظم

آوارہ گرد لمحے

چندر بھان خیال

;

آوارہ گرد لمحے یوں بے قرار بھٹکیں
جیسے پرند پیاسے دیوانہ وار بھٹکیں

بے جان و بے تکلم اک آرزو ہے تنہا
جنگل میں جیسے کوئی ویران سی عمارت

بستی سے دور جیسے خاموشیوں کا پربت
تانے کھڑا ہو خود کو جامد صدی کی صورت

احساس اپنی لو پر یوں تمتمائے جیسے
شعلوں پہ چل رہا ہو اک بے لباس جوگی

کہتی ہے عقل ہم کو جلوت پسند روگی
کیا سادھوؤں میں ایسی جوالا جگی نہ ہوگی

اکثر سمیٹتے ہیں بکھرے ہوئے جنوں کو
ہم لوگ آج بھی ہیں کس درجہ نا مکمل

شیطاں صفت شرارے اوڑھے دھویں کے کمبل
دوشیزگی غم کو جھل سائیں جب مسلسل

چنگھاڑتی ہیں سانسیں سینوں میں بے تحاشا
جیسے عظیم انساں پامال ہو گیا ہو

جیسے ہر ایک لٹ کر کنگال ہو گیا ہو
اک مختصر سا پل بھی صد سال ہو گیا ہو

اجگر گپھا میں لیٹا شیرینیاں چبائے
اور ہم یہ سوکھے پتے اب تک بٹورتے ہیں