حضرت آدم پہ جو گزری ہے سب کو یاد ہے
دانۂ گندم کی زندہ آج تک بیداد ہے
آج پھر اولاد آدم پر وہی افتاد ہے
اس کا بانی بھی فرشتوں کا وہی استاد ہے
دور دورہ آج اس کا چور بازاروں میں ہے
ماہرین چور بازاری کے غم خواروں میں ہے
ان میں دیکھا اس کا جلوہ جو ذخیرہ باز ہیں
دفن تہہ خانوں میں جن کے بوریوں کے راز ہیں
بوریوں سے ملتے جلتے توند کے انداز ہیں
اور فریاد و بکا میں سب کے ہم آواز ہیں
توند پر ہے ہاتھ اور فاقوں سے حالت زار ہے
ان کو ایندھن اس جہنم کے لیے درکار ہے
ہو گیا بازار سے آٹے کا ایسا انتقال
اب کھلے بازار میں آٹے کا ملنا ہے محال
اک ذخیرہ باز مولانا نما دوکان دار
قوم کے اس ابتلا سے کل بہت تھے بے قرار
آہ اس ملت کا کیوں گیہوں پہ ہے دار و مدار
کاش کھاتی باجرا یا کاش یہ کھاتی جوار
اس کے کھانے کے لیے نعمت ہر اک موجود ہے
دانۂ گندم بھلا کیوں گوہر مقصود ہے
سچ جو پوچھو تو کہوں شیطان کا راشن ہے یہ
جس نے جنت لوٹ لی انساں کا وہ دشمن ہے یہ
حیف ہے انسان کر دے اس پر جنت تک نثار
سب کو گندم سے بچانا اے مرے پروردگار
سینکڑوں من یوں تو گیہوں میرے تہہ خانے میں ہے
اور مزا بھی کیا مجھے آزار پہچانے میں ہے
میرے حصہ کی وہی مے ہے جو پیمانے میں ہے
ہاں مگر دوزخ جو ہے گیہوں کے پروانے میں ہے
جس نے گیہوں کھا لیا دوزخ میں گولے کھائے گا
جس کو جنت چاہیئے وہ صرف چھولے کھائے گا
نظم
آٹا
شوکت تھانوی