ذات کی آسودگی کے سب جتن کرتا رہوں
طائروں کے سنگ اڑ کر
آسماں کی جھلملاتی نیلگوں سی گود میں اخلاص کی گرمی
محبت کی تپش کو
ہر گھڑی میں ڈھونڈھتا پھرتا رہوں
یا کبھی اپنے خیالوں کی ردا اوڑھے
میں دھرتی کے کھلے سینے پہ سر رکھ کر
اور اپنی بانہیں اس کے گرد لپٹانے کی کوشش میں
جہاں بھر کے گلے شکوے گھنے بالوں میں
آنکھوں سے چھنے موتی سمجھ کے ڈالتا جایا کروں
یا کبھی میں نارسائی کے سمندر میں
کسی چھوٹی سی مچھلی کی طرح
اپنے تحفظ اور اپنی زندگانی کو
خوشی کے خوبصورت آسمانی سات رنگوں کے
کسی نادیدہ سانچے میں
بدل دینے کا ایسا مکر و فن کرتا رہوں
ذات کی آسودگی کے سب جتن کرتا رہوں
نظم
آسودہ حالی کے جتن
جمشید آفاق