راکھ اڑاتی ہوئی
اور بن خاکداں کوئی جلتا نہیں
اس ستارے کے اس پار بھی کوئی جلتا تو ہوگا کسی آسماں کے تلے
خواب نے راستوں پر دیے رکھ دیے
میں نے ہر شام دیکھا
کہ تم آئے تھے
اور مل کر گئے
اور ہر شام اک تار کفش و کلہ جل گیا
ایک جلتا ہوا سلسلہ جل گیا
ہاں مگر اک دیا سا اٹھائے رکھو
تار کفش و کلہ کے قریں
اک دیا سا جلائے رکھو
آسماں خاکداں
نظم
آسماں خاکداں
محمد انور خالد