آصف الدولۂ مرحوم کی تعمیر کہن
جس کی صنعت کا نہیں صفحۂ ہستی پہ جواب
دیکھ سیاح اسے رات کے سناٹے میں
منہ سے اپنے مہ کامل نے جب الٹی ہو نقاب
در و دیوار نظر آتے ہیں کیا صاف و سبک
سحر کرتی ہے نگاہوں پہ ضیائے مہتاب
یہی ہوتا ہے گماں خاک سے مس اس کو نہیں
ہے سنبھالے ہوئے دامن میں ہوائے شاداب
یک بہ یک دیدۂ حیراں کو یہ شک ہوتا ہے
ڈھل کے سانچے میں زمیں پر اتر آیا ہے سحاب
بے خودی کہتی ہے آیا یہ فضا میں کیوں کر
کسی استاد مصور کا ہے یہ جلوۂ خواب
اک عجب منظر دلگیر نظر آتا ہے
دور سے عالم تصویر نظر آتا ہے
نظم
آصف الدولہ کا امام باڑہ لکھنؤ
چکبست برج نرائن