کوئی بتلائے مجھے
میرے ان جاگتے خوابوں کا مقدر کیا ہے؟
میں کہ ہر شے کی بقا جانتا ہوں
اڑتے لمحوں کا پتا جانتا ہوں
سرد اور زرد ستاروں کی تگاپو کیا ہے
رنگ کیا چیز ہے خوشبو کیا ہے
صبح کا سحر ہے کیا، رات کا جادو کیا ہے
اور کیا چیز ہے آواز صبا جانتا ہوں
ریت اور نقش قدم موج کا رم
آنکھ اور گوشۂ لب زلف کا خم
شام اور صبح کا غم
سب کی قسمت ہے فنا جانتا ہوں
پھر بھی یہ خواب مرے ساتھ لگے رہتے ہیں
جاگتے خواب کہ جن کی کوئی تعبیر نہیں
کوئی تفسیر نہیں
صورت زخم ہرے رہتے ہیں
میرے ہاتھوں سے پرے رہتے ہیں
آگہی جہل سے بد تر ٹھہری
جاگتے خواب کی تعبیر مقدر ٹھہری
زندگی میرے لیے گنبد بے در ٹھہری
میں کہ آواز صبا جانتا ہوں
اڑتے لمحوں کا پتا جانتا ہوں
اور ہر شے کی بقا جانتا ہوں
نظم
آشوب آگہی
امجد اسلام امجد