مجھے ڈرایا گیا تھا
بچپن میں ایک آسیب سے
وہ آسیب!
جس کا پھولوں کے بیچ گھر تھا
وہ شوخ پھولوں کی چھاؤں میں پلنے والی خوشبو کا ہم سفر تھا
مجھے ڈرایا گیا تھا لیکن
طویل گرمی کی ہر سہانی سی دوپہر کو
میں اپنی ماں کی نظر بچا کر
گلابی نیندوں کی ریشمی انگلیاں چھڑا کر
دہکتے پھولوں کے درمیاں کھیلتی تھی پہروں
عجیب دن تھے
کہ ان دنوں میں
دہکتے پھولوں کے بیچ خوشبو کے ہم سفر سے
مری ملاقات جب ہوئی تھی
میں ڈر گئی تھی
کہ مجھ میں بچپن سے اجنبی خوف پل رہا تھا
مجھے بھی آسیب ہو گیا تھا
مگر یہ آسیب!
اب تو مجھ میں اتر رہا ہے
حسین پھولوں کے بیچ خوابوں کے سبز موسم میں
اس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے
میں خوشبوؤں کی طرح ہواؤں میں اڑ رہی ہوں
نظم
آسیب
عشرت آفریں