ایک پتھر کی ادھوری مورت
چند تانبے کے پرانے سکے
کالی چاندی کے عجب سے زیور
اور کئی کانسے کے ٹوٹے برتن
ایک صحرا ملے
زیر زمیں
لوگ کہتے ہیں کہ صدیوں پہلے
آج صحرا ہے جہاں
وہیں اک شہر ہوا کرتا تھا
اور مجھ کو یہ خیال آتا ہے
کسی تقریب
کسی محفل میں
سامنا تجھ سے مرا آج بھی ہو جاتا ہے
ایک لمحے کو
بس اک پل کے لئے
جسم کی آنچ
اچٹتی سی نظر
سرخ بندیا کی دمک
سرسراہٹ تری ملبوس کی
بالوں کی مہک
بے خیالی میں کبھی
لمس کا ننھا سا پھول
اور پھر دور تک وہی صحرا
وہی صحرا کہ جہاں
کبھی اک شہر ہوا کرتا تھا
نظم
آثار قدیمہ
جاوید اختر