وہ دیکھ کہ موجیں رقص کناں ہیں سطح زمیں پر گنگا کی
نو وارد آریہ حیرت میں ہیں دیکھ کے شان اس دریا کی
گنگوتری سے آتی ہے چلی اٹھکھیلیاں کرتی دھار اس کی
آزادی ہے تیور سے عیاں متوالی ہے رفتار اس کی
اتر کی طرف جب اٹھتی ہے اس قافلۂ مغرب کی نظر
پڑتی ہوئی کرنیں سورج کی ہیں دیکھتے برف کے تودوں پر
ہر قلۂ کوہ ہمالیہ پر عظمت کے ہیں بادل چھائے ہوئے
سینوں کو ہیں تانے دیو کھڑے امبر سے سروں کو ملائے
برگد کے درختوں سے جنگل پھیلے ہیں پہاڑ کے دامن میں
شاخیں ہیں جو ان کی سایہ فگن ظلمت کا سماں ہے ہر بن میں
پھرتے ہیں وہ فیل مست یہاں ہے دیو کا جن کے قد پہ گماں
یہ کالی گھٹا جب دوڑتی ہے آتا ہے نظر ہیبت کا سماں
ہیں رنگ برنگ کے پھول کھلے زینت ہے چمن کے شباب ان کا
کھولا ہے نسیم سحر نے ابھی کس شان سے بند نقاب ان کا
آتے ہیں مسافر ہند میں جو خیبر کے دروں سے اتر کے ابھی
دیکھے تھے انہوں نے لالہ و گل پامیر کی وادی میں نہ کبھی
طائر بھی یہاں پیدا ہیں کیے قدرت نے عجب گل رنگ و حسیں
گر زمزمے ان کی روشنی سن لیں یاد آئے انہیں فردوس بریں
اندر کے اکھاڑے کی پریاں گاتی ہیں جو دلکش راگنیاں
یہ لوچ سروں میں ان کے نہیں یہ سوز گلوں میں ان کے کہاں
سورج کی چمکتی ہوئی کرنیں ہیں چھیڑتی ٹھنڈی ہواؤں کو
بھر دیتی ہیں نور و حرارت سے باغوں کو اور ان کی فضاؤں کو
سوتی ہوئی سوتیں چشموں کی اٹھتی ہیں سب آنکھیں مل مل کر
دھاریں ہیں جو برف کے پانی کی آتی ہیں پہاڑوں سے چل کر
اے آریوں قدم رکھو ان حسن بھرے گلزاروں میں
جنت کے مزے لوٹو گے سدا اس پاک زمیں کی بہاروں میں
تم گنگ و جمن کے کناروں پر شہر اپنے نئے آباد کرو
گا گا کے بھجن کر کر کے ہون ہو جاؤ مگن دل شاد کرو
نظم
آریوں کی پہلی آمد ہندوستان میں
وحید الدین سلیم