سوالیہ نشان کی قطار میں کھڑے ہوئے مفکرو!
جواب دو
وہ کون، کیسا، کس لیے، کہاں پہ، کب سے، کب تلک؟
سوال شش جہات کا جواب کوئی اب تلک؟
''مگر یہاں کشاد چشم و لب کسی کے بس میں ہے
سوال تک رسائی جب محال ہے
تو ہمت جواب کس کے بس میں ہے
وہ کس کی دسترس میں ہے
جو معرفت کے لب کھلے
تو پتھروں کی بارشوں سے سولیاں لہولہان ہو گئیں
اگر کسی پیمبر عظیم کی نظر اٹھی
نگاہ بازگشت نامراد کی شکستگی کے وار سے
بصیرتوں کے زعم میں بصارتیں بھی جل گئیں
تو ٹھیک ہے
تمہیں کشاد چشم و لب کی لذتوں کی کیا خبر
سو تم ہنوز برزخ تذبذب و گمان میں پڑے رہو
مفکرو!
سوالیہ نشان کی قطار میں کھڑے رہو
نظم
اعراف
سید مبارک شاہ