EN हिंदी
آپ بیتی | شیح شیری
aap-biti

نظم

آپ بیتی

قتیل شفائی

;

میرے خوابوں کے شبستاں میں اجالا نہ کرو
کہ بہت دور سویرا نظر آتا ہے مجھے

چھپ گئے ہیں مری نظروں سے خد و خال حیات
ہر طرف ابر گھنیرا نظر آتا ہے مجھے

چاند تارے تو کہاں اب کوئی جگنو بھی نہیں
کتنا شفاف اندھیرا نظر آتا ہے مجھے

کوئی تابندہ کرن یوں مرے دل پر لپکی
جیسے سوئے ہوئے مظلوم پہ تلوار اٹھے

کسی نغمے کی صدا گونج کے یوں تھرائی
جیسے ٹوٹی ہوئی پازیب سے جھنکار اٹھے

میں نے پلکوں کو اٹھایا بھی تو آنسو پائے
مجھ سے اب خاک جوانی کا کوئی بار اٹھے

تم نے راتوں میں ستارے تو ٹٹولے ہوں گے
میں نے راتوں میں اندھیرے ہی اندھیرے دیکھے

تم نے خوابوں کے پرستاں تو سجائے ہوں گے
میں نے ماحول کے شب رنگ پھریرے دیکھے

تم نے اک تار کی جھنکار تو سن لی ہوگی
میں نے گیتوں میں اداسی کے بسیرے دیکھے

مرے غم خوار مرے دوست تمہیں کیا معلوم
زندگی موت کے مانند گزاری میں نے

ایک بگڑی ہوئی صورت کے سوا کچھ بھی نہ تھا
جب بھی حالات کی تصویر اتاری میں نے

کسی افلاک نشیں نے مجھے دھتکار دیا
جب بھی روکی ہے مقدر کی سواری میں نے

مرے غم خوار مرے دوست تمہیں کیا معلوم!