زمانے کے صحرا میں گلے سے بچھڑی ہوئی بھیڑ
تنہا پشیماں ہراساں ہراساں
امید و محبت کی اک جوت آنکھوں میں اپنی جگائے
ہر اک راہرو کی طرف دیکھتی ہے
کہ ان میں ہی شاید کوئی میرے گلے کا بھی پاسباں ہو
مگر اس بیاباں میں شاید سراب اور پرچھائیوں کے سوا
کچھ نہیں ہے
مجھے کون سینے سے اپنے لگائے
کہ عیسیٰ تو مدت ہوئی آسمانوں میں گم ہو چکے ہیں!
نظم
آپ بیتی
افتخار اعظمی