EN हिंदी
آنکھیں میری کیا ڈھونڈتی ہیں | شیح شیری
aankhen meri kya DhunDti hain

نظم

آنکھیں میری کیا ڈھونڈتی ہیں

بدنام نظر

;

آنکھیں میری کیا ڈھونڈھتی ہیں
پانی میں یا چٹانوں میں

شبنم کے ننھے قطروں میں
بارودی دہکتے شعلوں میں

گلزاروں میں
یا بنجر ریگستانوں میں

محفل میں تنہائی میں
دوسروں کی انگنائی میں

نظموں کے تیکھا پن میں
غزلوں کی رعنائی میں

میخوانوں کے بند کواڑوں کے پیچھے
مندر میں چڑھائے پھولوں میں

مسجد کے خالی مصلیٰ پر
مرگھٹ میں قبرستانوں میں

بازاروں میں ویرانوں میں
دشت سے کانپتے ہونٹوں پر

وحشت سے لپکتے جذبوں پر
بوسیدہ کچی کھولی میں

اونچے اونچے ایوانوں میں
منصف کے پھسلتے قلموں پر

ملزم کی لرزتی سانسوں میں
انصاف کی اندھی دیوی میں

یا جھول رہے میزانوں میں
بچوں کی تڑپتی لاشوں میں

ماؤں کی بھی ممتا میں
آنکھیں میری اسی چہرے کی متلاشی ہیں

جس چہرے میں وہ رہتی تھیں
وہ چہرہ جو اب خود کو بھی پہچاننے سے قاصر ہے نظرؔ

آنکھیں اس کو کیا ڈھونڈیں گی