آج پھر
ایک لڑکی
رخصت ہو کر جا رہی ہے
آنکھوں میں اپنی
سپنے سجائے
سپنوں کے محل میں
پیار بسائے
پھر ویسا ہی گھر
ویسا ہی چولہا
ویسے ہی لوگ
اور
ایک عام سا دولہا
دولہن
چاہتے ہوئے بھی محل کو
قائم نہیں رکھ پائے گی
دولہا
پا کر بھی دولہن کو
کبھی نہیں چاہے گا

نظم
عام سا دولہا
شیریں احمد