زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے
یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں
زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے
ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں
اڑ رہے ہیں
زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا
ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ہے
یہ چاند جس پر قدم ہے تیرا
یہ شہد جس پر زباں ہے میری
یہ سبز لمحے یہ کرمک شب اسی گلستاں کے موسم ابر کے ثمر ہیں
جہاں ہواؤں کے تیز طوفان منتظر ہیں کہ آخری پیڑ
کب گرے گا
نظم
آخری پیڑ کب گرے گا
اختر حسین جعفری