آخری کوس مجھے آج ہی طے کرنا ہے
اور اس لمبے سفر کا یہ کڑا کوس مجھے
اس قدر لمبا بڑھانا ہے کہ اب سے پہلے
جو بھی کچھ گزرا ہے ماضی میں اسے پھر اک بار
حاضر و ناظر و موجود سا میں جھیل سکوں
عرصۂ غائب و معدوم سے اس لمحے تک
وادیاں جھرنے چراگاہیں مویشی پنچھی
کھیت کھلیان چھپر کھٹ مرے گھر کا دالان
گاؤں کی گلیاں مکاں لوگ دکانیں بازار
اور پھر شہر کی سڑکیں بسوں کاروں کا شور
عمر بڑھتی ہوئی بچپن سے لڑکپن کی طرف
اور لڑکپن کی وہ نا پختہ بلوغت جس میں
مجھ کو احساس ہوا تھا کہ کوئی اور بھی ہے
زندگی ساری جسے ساتھ مرے چلنا ہے
کیسا شوریدہ سر طوفان تھا طغیانی تھی
جس نے اک باؤلے انسان کو بے رحمی سے
دور انجانے سے پردیس میں لا پٹخا تھا
اور پھر پا بہ رکاب آگے ہی آگے کی طرف
سر پہ سامان اٹھائے ہوئے بنجاروں سا
ڈنڈی پگڈنڈی سڑک نقل و حمل حرکت و کوچ
کیسی آیند ورود تھی یہ مہم جو ہجرت
جس میں سیماب قدم چلتا رہا ہوں برسوں
ایک کوس اور مجھے آج کی شب چلنا ہے
اور اس رات فقط اپنی ہی صحبت میں اگر
جو بھی میں بھوگ چکا ہوں اسے صہبا کی طرح
آخری کوس کے اس جام میں بھر کر آنند
ایک لمحہ بھی توقف نہ کروں ہاتھ میں لوں
اور اک گھونٹ میں پی جاؤں تو میرا یہ سفر
سرخ روئی سے مکمل ہو مجھے سیر کرے
آخری کوس مجھے آج ہی طے کرنا ہے
نظم
آخری کوس
ستیہ پال آنند