آخری بس
تیرتی سی جا رہی ہے
شب کی فرش مرمریں پر
شبنم آگیں دھند کی نیلی گپھا میں
بس کے اندر ہر کوئی بیٹھا ہے
اپنا سر جھکائے
خستگی دن کی چبائے
کیا ہوئی اک دوسرے سے بات کرنے کی
وہ راحت وہ مسرت
آج دنیا آخری بس کی طرح محو سفر ہے
سب مسافر
قرب کے احساس سے نا آشنا بیٹھے ہوئے ہیں
اب کسی کو اجنبی ہونا برا لگتا نہیں ہے
نظم
آخری بس
راجیندر منچندا بانی