آج پھر درد اٹھا دل کے نہاں خانے میں
آج پھر لوگ ستانے کو چلے آئیں گے
آج پھر کرب کے شعلوں کو ہوا دوں گا میں
اور کچھ لوگ بجھانے کو چلے آئیں گے
آگ سے آگ بجھی ہے نہ بجھے گی لیکن
درد کو آگ کے دریا میں اترنا ہوگا
آگ اور درد کے معیار پرکھنے کے لئے
ان اندھیروں کی فصیلوں سے گزرنا ہوگا
میں اندھیروں کی رفاقت سے نہیں ہوں بیزار
شام تنہائی اندھیرا بھی بھلا لگتا ہے
حیف صد حیف کہ منکر تھا زمانہ جس کا
آج وہ جرم مکانوں میں ہوا لگتا ہے
لاکھ کمرے کو ٹٹولا بھی مگر کچھ نہ ملا
فرش پر خون کی دو چار لکیروں کے سوا
جنگ اور ظلم کے اسرار نہاں اے زنداں
جان پائے گا بھلا کون اسیروں کے سوا
درد دل ہے کہ بھٹکتی ہوئی روحوں کا جلال
قتل ہو کر بھی دھڑکتا ہے جو ویرانوں میں
میں سلگتا ہی رہا اور وہ انداز جنوں
چھپ گیا آگ لگا کر مرے ارمانوں میں
نظم
آج پھر درد اٹھا
چندر بھان خیال