رات آتے ہی مجھے خود سے بھی ڈر لگتا ہے
پیڑ چلتے ہیں ہواؤں سے صدا آتی ہے
میری تنہائی کی خاموش فضا گاتی ہے
روشنی جاگنے لگتی ہے سیہ خانے میں
جان پڑ جاتی ہے بھولے ہوئے افسانے میں
آنے لگتی ہیں کئی اجنبی مہکاریں سی
گونجنے لگتی ہیں پازیب کی جھنکاریں سی
ہاتھ میں وقت کے ہوتا ہے مسرت کا رباب
جگمگاتے ہیں اندھیروں میں ہزاروں مہتاب
بات ہونے نہیں پاتی کہ بچھڑ جاتی ہو
میری تقدیر کی مانند بگڑ جاتی ہو
آج کی رات بھی شاید یہی عالم ہوگا!
چاند سورج کی طرح لمحے نکل آئیں گے
دیکھتے دیکھتے دن رات بدل جائیں گے
وہی پلکیں وہی زلفیں وہی صورت ہوگی
میرے گھر میں مری مہمان محبت ہوگی!
رات آتے ہی مجھے خود سے بھی ڈر لگتا ہے
نظم
آج کی رات
صابر دت