EN हिंदी
آج کی رات | شیح شیری
aaj ki raat

نظم

آج کی رات

اسرار الحق مجاز

;

دیکھنا جذب محبت کا اثر آج کی رات
میرے شانے پہ ہے اس شوخ کا سر آج کی رات

اور کیا چاہئے اب اے دل مجروح تجھے
اس نے دیکھا تو بہ انداز دگر آج کی رات

پھول کیا خار بھی ہیں آج گلستاں بہ کنار
سنگریزے ہیں نگاہوں میں گہر آج کی رات

محو گلگشت ہے یہ کون مرے دوش بدوش
کہکشاں بن گئی ہر راہ گزر آج کی رات

پھوٹ نکلا در و دیوار سے سیلاب نشاط
اللہ اللہ مرا کیف نظر آج کی رات

شبنمستان تجلی کا فسوں کیا کہیے
چاند نے پھینک دیا رخت سفر آج کی رات

نور ہی نور ہے کس سمت اٹھاؤں آنکھیں
حسن ہی حسن ہے تا حد نظر آج کی رات

قصر گیتی میں امنڈ آیا ہے طوفان حیات
موت لرزاں ہے پس پردۂ در آج کی رات

اللہ اللہ وہ پیشانیٔ سیمیں کا جمال
رہ گئی جم کے ستاروں کی نظر آج کی رات

عارض گرم پہ وہ رنگ شفق کی لہریں
وہ مری شوخ نگاہی کا اثر آج کی رات

نرگس ناز میں وہ نیند کا ہلکا سا خمار
وہ مرے نغمۂ شیریں کا اثر آج کی رات

نغمہ و مے کا یہ طوفان طرب کیا کہیے
گھر مرا بن گیا خیامؔ کا گھر آج کی رات

میری ہر سانس پہ وہ ان کی توجہ کیا خوب
میری ہر بات پہ وہ جنبش سر آج کی رات

وہ تبسم ہی تبسم کا جمال پیہم
وہ محبت ہی محبت کی نظر آج کی رات

اف وہ وارفتگئ شوق میں اک وہم لطیف
کپکپائے ہوئے ہونٹوں پہ نظر آج کی رات

مذہب عشق میں جائز ہے یقیناً جائز
چوم لوں میں لب لعلیں بھی اگر آج کی رات

اپنی رفعت پہ جو نازاں ہیں تو نازاں ہی رہیں
کہہ دو انجم سے کہ دیکھیں نہ ادھر آج کی رات

ان کے الطاف کا اتنا ہی فسوں کافی ہے
کم ہے پہلے سے بہت درد جگر آج کی رات