آج کی بات نئی بات نہیں ہے ایسی
جب کبھی دل سے کوئی گزرا ہے یاد آئی ہے
صرف دل ہی نے نہیں گود میں خاموشی کی
پیار کی بات تو ہر لمحے نے دہرائی ہے
چپکے چپکے ہی چٹکنے دو اشاروں کے گلاب
دھیمے دھیمے ہی سلگنے دو تقاضوں کے الاؤ!
رفتہ رفتہ ہی چھلکنے دو اداؤں کی شراب
دھیرے دھیرے ہی نگاہوں کے خزانے بکھراؤ
بات اچھی ہو تو سب یاد کیا کرتے ہیں
کام سلجھا ہو تو رہ رہ کے خیال آتا ہے
درد میٹھا ہو تو رک رک کے کسک ہوتی ہے
یاد گہری ہو تو تھم تھم کے قرار آتا ہے
دل گزر گاہ ہے آہستہ خرامی کے لئے
تیز گامی کو جو اپناؤ تو کھو جاؤ گے
اک ذرا دیر ہی پلکوں کو جھپک لینے دو
اس قدر غور سے دیکھو گے تو سو جاؤ گے
نظم
آج کی بات
زہرا نگاہ