آج چلی ہے ہوا
مدتوں کے بعد
حیات سے تعلق تھا جس کا
ہر وہ شے ترس گئی
کہ گوش کو تنفس کی
سرگم نصیب ہو
سنائی دے سرسراتی سی ایک آواز
کوئی سرگوشی کوئی دستک بن کر
آتی جاتی جو میرے قریب ہو
دست ماضی سے جوڑ اپنے بازو
یاد ایام کے آغوش میں
گم گشتہ دیدۂ تر چل پڑا
ہے ایک تلاش میں
یا تو آنکھوں کی نمی سے چھٹکارا ملے
یا پھر دل کی امیدیں بر آئیں
لیکن یہ کیا کہ
اس نا مراد کھوج میں
آنکھیں در بہ در بھٹکتی ہوئی
خالی ہاتھ لوٹ کر
تھکی ہاری گھر آئیں
تبھی چلنے لگی ہوا میرے باغ میں
درختوں کے پتے لرزنے لگے
گلوں کے حسیں لبوں پر
تبسم اگا
اور ایک ننھی سی لو جگی چراغ میں
کھلی ہوا میں سانس لینے کی خواہش
دل ناساز میں ارماں جگا گئی
گھٹن سے تنگ آ کر میں نے
پھر کھولی جو زنجیر در
کمبخت ہوا کی سوزش
چشم نم سکھا گئی
اور چراغوں پر رقص کرتے
شراروں کو بجھا گئی
نظم
آج چلی ہے ہوا
ؔآدتیہ پنت ناقد