جب چھلکتے ہیں زر و سیم کے گاتے ہوئے جام
ایک زہراب سا ماحول میں گھل جاتا ہے
کانپ اٹھتا ہے تہی دست جوانوں کا غرور
حسن جب ریشم و کمخواب میں تل جاتا ہے
میں نے دیکھا ہے کہ افلاس کے صحراؤں میں
قافلے عظمت احساس کے رک جاتے ہیں
بے کسی گرم نگاہوں کو جھلس دیتی ہے
دل کسی شعلۂ زرتاب سے پھک جاتے ہیں
جن اصولوں سے عبارت ہے محبت کی اساس
ان اصولوں کو یہاں توڑ دیا جاتا ہے
اپنی سہمی ہوئی منزل کے تحفظ کے لیے
رہ گزاروں میں دھواں چھوڑ دیا جاتا ہے
میں نے جو راز زمانے سے چھپانا چاہا!
تو نے آفاق پہ اس راز کا در کھول دیا
میری بانہوں نے جو دیکھے تھے سنہرے سپنے
تو نے سونے کی ترازو میں انہیں تول دیا
آج افلاس نے کھائی ہے زرسیم سے مات
اس میں لیکن ترے چلوؤں کا کوئی دوش نہیں
یہ تغیر اسی ماحول کا پروردہ ہے
اپنی بے رنگ تباہی کا جسے ہوش نہیں
رہ گزاروں کے دھندلکے تو ذرا چھٹ جائیں
اپنے تلووں سے یہ کانٹے بھی نکل جائیں گے
آج اور کل کی مسافت کو ذرا طے کر لیں
وقت کے ساتھ ارادے بھی بدل جائیں گے
نظم
آج اور کل
قتیل شفائی