آئنے کچھ تو بتا ان کا تو ہم راز ہے تو
تو نے وہ زلف وہ مکھڑا وہ دہن دیکھا ہے
ان کے ہر حال کا بے ساختہ پن دیکھا ہے
وہ نہ خود دیکھ سکیں جس کو نظر بھر کے کبھی
تو نے جی بھر کے وہ ہر خط بدن دیکھا ہے
ان کی تنہائی کا دل دار ہے دم ساز ہے تو
آئنے کچھ تو بتا ان کا تو ہم راز ہے تو
کیا وہ شاعر کی طرح خود کو کبھی دیکھتے ہیں
ٹکٹکی باندھ کے کیا اپنی چھبی دیکھتے ہیں
شوخ معصوم جواں مست سجل بے پروا
کیا وہ خود اپنے یہ انداز سبھی دیکھتے ہیں
اتنا گم سم ہے کہ خود اپنا ہی انداز ہے تو
آئنے کچھ تو بتا ان کا تو ہم راز ہے تو
کبھی گھبرائے ہوئے بھی تو وہ آتے ہوں گے
دل کی دھڑکن کو جو رخسار پہ پاتے ہوں گے
کانپتا جسم سنبھالے نہ سنبھلتا ہوگا
اپنی آنکھوں سے بھی خود آنکھ چراتے ہوں گے
ضبط نا کام کا گھبرایا ہوا ناز ہے تو
آئنے کچھ تو بتا ان کا تو ہم راز ہے تو
مخملیں زلف بنانے وہ جب آئیں گے نا
پہلے اس چاند سے مکھڑے کی بلائیں لینا
پھر زباں تجھ کو جو مل جائے سرگوشی میں
حسن کو اور نکھرنے کی دعائیں دینا
خلوت حسن میں اک عشق کی آواز ہے تو
آئنے کچھ تو بتا ان کا تو ہم راز ہے تو
نظم
آئینے سے
عزیز قیسی