دفعتاً یونہی اک دن
آئینے میں خم آیا
اس طرح وہ بورایا
میری خوش نما صورت
خوں سے ہو گئی لت پت
پینے کانچ کے ٹکڑے
ہر طرف چھٹکنے لگے
ایک ٹکڑا آوارہ
جانے کیسے جا پہنچا
یاد کی سواری پر
بھولے بسرے ماضی پر
بجلی کی طرح چمکا
جب وہ جا کے ٹکرایا
گمشدہ اک پتھر سے
اٹھ گئے بونڈر سے
ایک دم یہ یاد آیا
میں نے ہی اچھالا تھا!
اس انا کے پتھر کو
داغ دل کے نشتر کو
وہ ہی لوٹ کر آیا
آئنے سے ٹکرایا
دفعتاً یوں ہی اک دن!
نظم
آئینے میں خم آیا
اشوک لال