میں آج سویرے جاگ اٹھا
دیکھا کہ ہے ہر سو سناٹا
چپ چاپ ہے سارا گھر آنگن
باہر سے بند ہے دروازہ
سب بھائی بہن بیوی بچے
آخر ہیں کہاں ہے کیا قصہ
اتنے میں عجب اک بات ہوئی
ناگاہ جو دیکھا آئینہ
اک آدمی مجھ کو آیا نظر
مجھ سے ہی مگر ملتا جلتا
دو سینگ ہیں اس کے سر پہ اگے
یہ دیو ہے کوئی یا دیوتا
تم کون ہو یہ پوچھا میں نے
پر کوئی نہ مجھ کو جواب ملا
میں کانپ اٹھا تھر تھر تھر تھر
سوچا کہ کروں جھک کر سجدہ
اتنے میں ہوئی اک آہٹ سی
میں سن کے یکایک چونک اٹھا
اب دیر ہوئی اٹھئے پاپا
ہاں مجھ کو دفتر جانا ہے
اس خواب کا لیکن کیا ہوگا
نظم
آئینہ در آئینہ
خلیلؔ الرحمن اعظمی