اس بار وہ ملا تو عجب اس کا رنگ تھا
الفاظ میں ترنگ نہ لہجہ دبنگ تھا
اک سوچ تھی کہ بکھری ہوئی خال و خط میں تھی
اک درد تھا کہ جس کا شہید انگ انگ تھا
اک آگ تھی کہ راکھ میں پوشیدہ تھی کہیں
اک جسم تھا کہ روح سے مصروف جنگ تھا
میں نے کہا کہ یار تمہیں کیا ہوا ہے یہ
اس نے کہا کہ عمر رواں کی عطا ہے یہ
میں نے کہا کہ عمر رواں تو سبھی کی ہے
اس نے کہا کہ فکر و نظر کی سزا ہے یہ
میں نے کہا کہ سوچتا رہتا تو میں بھی ہوں
اس نے کہا کہ آئینہ رکھا ہوا ہے
دیکھا تو میرا اپنا ہی عکس جلی تھا وہ
وہ شخص میں تھا اور حمایتؔ علی تھا وہ
نظم
آئینہ در آئینہ
حمایت علی شاعرؔ