گزر رہے ہیں مری زندگی کے شام و سحر
گنوں گا بیٹھا ہوا دانہ دانہ ہر ساعت
صدا لگاتی گدایانہ شام آئی تھی
یہ کوئی در نہ کھلا
نہ کچھ جواب ملا
نڈھال، دبکی ہوئی سو رہی ہے کونے میں
دھرا ہے کیا مری جھولی میں آہٹوں کے سوا
یہی ہے زاد سفر
یہی مری سوغات
کسی کو دوں بھی تو کوئی بھلا نہ ہو اس کا
جو ساتھ قبر میں لے جاؤں تو ملال نہ ہو
ہر ایک گام پہ لیکن یہ ساتھ آئی ہیں
یہاں میں خود نہیں پہنچا یہ مجھ کو لائی ہیں
نظم
آہٹیں
منیب الرحمن