کن خیالات میں یوں رہتی ہو کھوئی کھوئی
چائے کا پانی پتیلی میں ابل جاتا ہے
راکھ کو ہاتھ لگاتی ہو تو جل جاتا ہے
ایک بھی کام سلیقے سے نہیں ہو پاتا
ایک بھی بات محبت سے نہیں کہتی ہو
اپنی ہر ایک سہیلی سے خفا رہتی ہو
رات بھر ناولیں پڑھتی ہو نہ جانے کس کی
ایک جمپر نہیں سی پائی ہو کتنے دن سے
بھائی کا ہاتھ بھی غصے سے جھٹک دیتی ہو
میز پر یوں ہی کتابوں کو پٹک دیتی ہو
کن خیالات میں یوں رہتی ہو کھوئی کھوئی
نظم
آغاز
کفیل آزر امروہوی