EN हिंदी
آگ | شیح شیری
aag

نظم

آگ

انور مقصود زاہدی

;

سلگتے ہوئے
میٹھے جذبات

کی آگ سے جسم
کچھ اس طرح تپ رہا ہے

کہ جی چاہتا ہے نظر جو بھی آئے
اسے اپنی بانہوں میں کچھ ایسے بھینچوں

کہ میرے بدن میں سما جائے وہ یوں
نظر تک نہ آئے

ہٹاؤں جو بانہیں
میں اس کے گلے سے

تو ڈھیر ایک مٹی کا
قدموں میں پاؤں