EN हिंदी
آبلوں کی کرچیں | شیح شیری
aablon ki kirchen

نظم

آبلوں کی کرچیں

خالد غنی

;

بہت دنوں کے بعد
اس شہر میں بھٹکا ہوا

بوندھ بوندھ بنتا ہوا
مضبوطی سے پکڑے ہوئے مضمحل زخم آلودہ آبلوں کو

چلا رہا تھا اپنے کاندھوں پر لادے اپنے ننگے سر کو
مگر راستے کے وحشی ہنگاموں نے مجھے توڑ ڈالا

بھاگنے کے سارے راستے بند
خون کا دباؤ بڑھنے لگا

تب میرے ہاتھ سے وہ گٹھری گر پڑی
جسے میں نے بہت سنبھال کر رکھا تھا

اور مرے پاؤں میں کرچیں چبھ گئیں