وہ دن کیسے دن تھے
ہوا مجھ سے کہتی
چلو ساتھ میرے
چلو دونوں مل کر تجارت کریں
دور کی سر زمینوں کے
لوگوں سے
پینگیں بڑھائیں
سمندر کی موجوں کو ہم پار کر کے
گھنے سرخ شہروں میں موجیں اڑائیں
مگر میں یہ کہتا
مجھے سمت سے کچھ بھی لینا نہیں ہے
کہ ہر سمت
ساحل پہ بیٹھی چٹانوں سے
سر پھوڑتی ہے
وہیں پھر چٹانوں کے قدموں میں
دم توڑتی ہے
نہیں میں یہ کہتا
مجھے دور دیسوں کو جانا نہیں ہے
مجھے تو سمندر کے اندر ہی رہنا ہے
وہیلوں سے اور شارکوں سے بھرے
گہرے ساگر میں چاروں طرف گھومنا ہے
مجھے ان جزیروں سے بھی دور رہنا ہے
جو میٹھے نغموں سائرن کا جادو جگائے
گھنی نیند تقسیم کرنے پہ مامور ہیں
ہوا مجھ سے کہتی
چلو ساتھ میرے
مگر میں سمندر کے نمکین پانی کا عادی
مجھے کیا پڑی تھی کہ میں
سرپھری اس ہوا کی کوئی بات سنتا
کسی ساحلی شہر کے پب پب کے اندر
لہو ایسے مشروب کی تہ میں
تلچھٹ کی صورت شرابور ہوتا
مجھے کیا پڑی تھی
ہٹو
سرخ مشروب کی تہ سے
چھنگلی پہ رکھ کر نکالو نہ مجھ کو
دکھاؤ نہ سب کو
میں ساگر کا باسی
مجھے کیا پڑی تھی
میں اک ساحلی شہر کے پب کے اندر
لہو ایسے مشروب کی تہ میں
تلچھٹ کی صورت شرابور ہوتا
مجھے کیا پڑی تھی
نظم
تجارتی ہوا
وزیر آغا