EN हिंदी
عجیب ہے یہ زندگی | شیح شیری
ajib hai ye zindagi

نظم

عجیب ہے یہ زندگی

تنویر نقوی

;

عجیب ہے یہ زندگی کبھی ہے غم کبھی خوشی
ہر ایک شے ہے بے یقیں ہر ایک چیز عارضی

یہ کارواں رکے کہاں کہ منزلیں ہیں بے نشاں
چھپے ہوئے ہیں راستے یہاں وہاں دھواں دھواں

خطر ہیں کتنے راہ میں سفر ہے کتنا اجنبی
عجیب ہے یہ زندگی

یہ گال زرد زرد سے اٹے ہوئے ہیں گرد سے
ستم رسیدہ دل یہاں تڑپ رہے ہیں درد سے

یہ صورتیں کہ جن پہ ہے ستم کی داستاں لکھی
عجیب ہے یہ زندگی

ہیں بہتری کے واسطے تو یہ ستم قبول ہیں
چنیں گے پھول جان کر جو راہ میں ببول ہیں

خوشی سے غم سہیں گے ہم جو غم کے بعد ہے خوشی
عجیب ہے یہ زندگی