اے آرزوئے حیات
اب کی بار جان بھی چھوڑ
تجھے خبر ہی نہیں کیسے دن گزرتے ہیں
اے آرزوئے نفس
اب معاف کر مجھ کو
تجھے یہ علم نہیں کتنی مہنگی ہیں سانسیں
کہ تو تو لفظ ہے
بس ایک لفظ ادھ مردہ
ترے خمیر کی مٹی کا رنگ لال گلال
سلگتی آگ نے تجھ کو جنا ہے اور تو خود
اک ایسی بانجھ ہے جس سے کوئی امید نہیں
تو ایسا زہر ہے جو پی کے کوئی بھی انساں
خود اپنے آپ کو کوئی خدا سمجھتا ہے
تو اک شجر ہے جو بس دھوپ بانٹتا ہی رہے
تو اک سفر ہے جو صدیوں سے بڑھتا جاتا ہے
تو ایسا دم ہے جو مردوں کو زندہ کرتا ہے
تو وہ کرم ہے جو ہر اک کریم مانگتا ہے
تو وہ طلب ہے جسے خود خدا بھی پوجتے ہیں
تو وہ طرب ہے جسے خود خوشی بھی مانگتی ہے
تو مجھ کو جتنے بھی اب شوخ رنگ دکھلائے
تو چاہے زندگی کو میرے پاس لے آئے
وقار اب ترے قدموں میں گرنے والا نہیں
اے آرزوئے حیات
اب میں پہلے والا نہیں
نظم
آرزوئے حیات
وقار خان