اک عمر دل کے پاس رہا وہ مگر کہیں
جب بھی ملا تو جیسے کہ کچھ جانتا نہیں
آنکھوں میں اک عجیب شناسائی تھی مگر
گہرائیوں میں دل کی پذیرائی تھی مگر
دیکھا کچھ اس طرح سے کہ پہچانتا نہیں
کچھ ہم سے آشنائی ہے یہ مانتا نہیں
میں نے کہا کہ تم سے ملاقات ہے بہت
ہر روز رسم و راہ مدارات ہے بہت
کہنے لگا کہ کوئی خلش ہے نگاہ میں
حائل ہے فاصلہ کوئی برسوں کا راہ میں
محو سفر ہیں اور ابھی ہم سفر نہیں
ہم راہ دل کے دل ہے مگر رہ گزر نہیں
خوابوں میں صبح و شام ملے بھی اگر تو کیا
دو چار پھول دل میں کھلے بھی اگر تو کیا
جو کچھ دل و نگاہ نے چاہا وہ ہو گیا
یہ سوچا دل نے اور نگاہوں میں کھو گیا
نظم
(9)
ذیشان ساحل